Friday 27 October 2023

اس کو دینا ہے تر و تازہ نہیں لگ رہا ہے

 زعفرانی غزل


اس کو دینا ہے، تر و تازہ نہیں لگ رہا ہے

پُھول کی عمر کا اندازہ نہیں لگ رہا ہے

چَھٹی حِس کہتی ہے اس بار پلٹ کر دیکھوں

کسی اوباش کا آوازہ نہیں لگ رہا

اس نے یہ کہہ کے مسیحائی نہیں کی میری

زخم گہرا ہے، مگر تازہ نہیں لگ رہا

اس وبا کو کبھی فِطرت کی نظر سے دیکھو

یہ کسی جُرم کا خمیازہ نہیں لگ رہا ہے


احمد سلیم رفی

No comments:

Post a Comment