ان کہی
کیا بتائیں تمہیں
کتنی صدیاں مہاجر پرندوں کی مانند
اک شاخ سے دوسری شاخ پر آتے جاتے کٹیں
کتنی آہیں امیدوں کے افلاک پر جھلملاتے کٹیں
کتنے آنسو سرِ لوحِ مژگاں اتارے گئے
دُکھ سنوارے گئے
کتنے خوابوں کے بے خانماں جسم
سگریٹ کے کش میں اُڑائے گئے
غم کے تیوہار
تنہائیوں میں منائے گئے
کتنے نوحے پسِ حلقِ تشنہ صلیبوں پہ لائے گئے
نم بجھائے گئے
ہائے سینے میں لکھی ہوئی داستاں
لب فصیلوں تلک آتے آتے کہیں کھو گئی
ان کہی ہو گئی
عبدالرحمان واصف
No comments:
Post a Comment