اب وہ رہتا ہے زمانے کے قریب
میں بھی ہوں اس کو بھلانے کے قریب
میں نے اک عکس کو مرتے دیکھا
رات اک آئینہ خانے کے قریب
سب مجھے دیکھتے ہی دور ہوئے
سانپ جتنے تھے خزانے کے قریب
اک صدا نے ہے بچایا، ورنہ
وہ پرندہ تھا نشانے کے قریب
اس کو دیکھوں تو نظر آتا ہے
دل مجھے چھوڑ کے جانے کے قریب
دوسرا کوئی نہیں ہو سکتا
دشت جتنا ہے دوانے کے قریب
ابر چھایا ہے یہ کس پل غائر
چاند ہے جب نظر آنے کے قریب
کاشف حسین غائر
No comments:
Post a Comment