افسوں
(آج لوٹا ہوں آپ سے مل کر)
نہ جانے بات ہے کیا
ہر طرف خوشی سی ہے
ہر ایک شئے پہ چھنی
جیسے چاندنی سی ہے
خیال و خواب سہی
ایک زندگی سی ہے
شکوک و شبہ سہی
ایک آگاہی سی ہے
دلِ حزیں کے لیے
آج سرخوشی سی ہے
نگاہ میں ہے فسوں
ہر طرف سماں ہے حسین
مجھے شکست مِری
آج تو قبول نہیں
وہ منزل آ ہی گئی
جس سے میرا دل تھا قریں
فسوں ہے جیسے کہیں
چاندنی چھلک جائے
کہ جام جیسے کوئی
آخری چھلک جائے
نگاہ ڈھونڈتی ہے
تیرا مے کدہ ساقی
کہ میری تشنہ لبی
اور ہے ابھی باقی
نشہ اُبھارتا ہے
اور مجھ کو پینے پر
اُبھارتا ہے فسوں
اور مجھ کو جینے پر
نہ جانے بات ہے کیا
ہر طرف فسوں سا ہے
کہ میرے آگے فلک
آج سرنگوں سا ہے
نہ جانے بات ہے کیا
ہر طرف خوشی سی ہے
ہر ایک شئے پہ چھنی
جیسے چاندنی سی ہے
دلِ حزیں کو مِرے
آج سرخوشی سی ہے
رحمان جامی
No comments:
Post a Comment