میں زندگی کے ہزاروں عذاب جھیل گیا
عذاب کیا ہیں میں کتنے ہی خواب جھیل گیا
یہ پیاس، دھوپ، سفر، دشت اور میں تنہا
غنیمِ وقت کا اک اک حساب جھیل گیا
میں اپنے آپ سے مِل کر بہت پشیماں ہوں
بچھڑتے رہنے کا پیہم عذاب جھیل گیا
اُفق اُفق وہ مگر مہر و مہ اُچھالے ہے
میں زخم زخم کئی آفتاب جھیل گیا
وہ اک صدا تھی کہ صدیوں کی گُونج تھی مجھ میں
اس ایک لمحہ میں کیا انقلاب جھیل گیا
اُکھڑ ہی جائے گا اب سائبان روز و شب
شمیم! بوجھ تو زورِ طناب جھیل گیا
مختار شمیم
No comments:
Post a Comment