مُدتوں سے جمی برف کے جونہی تودے پِگھلنے لگے
گہرے نمکین پانی جہازوں کے پیندے نِگلنے لگے
میں کہیں بیٹھ کر بِیتے لمحوں کو تسبیح کرتا رہا
اور آنکھوں کی تہہ میں چُھپے رنگ پرتیں بدلنے لگے
تیز آندھی کسی موج میں میرے آثار کو چُھو گئی
اور کسی عہد کے کتنے متروک معبد نِکلنے لگے
وقت کی لَے مِرے ساتھ ہمرقص تھی اور بغلگیر تھی
پھر سبھی سرمدی نغمے آزُردہ سازوں میں ڈھلنے لگے
میں پلٹ آیا ہوں خُشک ہوتے ہوئے ساحلوں کی طرف
اب مجھے اس سے کیا پتھروں سے بھی چشمے اُبلنے لگے
قاسم حیات
No comments:
Post a Comment