محبت کے قرینے سے اگر گُفتار ہو جائے
خُوشی سے آج میرا دل گُل و گُلزار ہو جائے
کروں باتیں میں اب تیرے در و دیوار سے ایسے
کہ جیسے درد میں کوئی مِرا غمخوار ہو جائے
مُرادوں کے کھلیں غُنچے اگر دامانِ اُلفت میں
تو ہر آتش کدہ اس کے لیے گُلزار ہو جائے
کسی کو بے وفا کہنا مناسب کب ہے اُلفت میں
خدا جانے وہ کب کس موڑ پر ناچار ہو جائے
حسِیں کلیاں نثارِ جاں ہیں تیری مُسکراہٹ پر
تُو اک پل مُسکرائے، زندگی مہکار ہو جائے
اگرچہ ہے تمہاری دسترس میں یہ جہانِ دل
محبت سے توجہ اے نگاہِ یار ہو جائے
تغیّر آشنا ہے فطرتِ انسان دُنیا میں
بہت مُمکن ہے اب سارا جہاں بیدار ہو جائے
مِرا تم نے تماشا جو بنایا ہے زمانے میں
خُدا ایسا کرے تجھ کو کسی سے پیار ہو جائے
عبدالرؤف زین
آج کے نوجوان شاعر کا نام عبدالرؤف زین ہے، ان کا تعلق حضرت بابا فریدالدین گنج بخش کے شہر پاکپتن شریف سے ہے۔ نئے شاعر ہیں لیکن اچھی اور معیاری شاعری کر رہے ہیں، ان کی شاعری کا مجموعہ بھی جلد منظرِ عام پر آنے والا ہے۔
غریبِ شہر کیسے لُٹ رہا ہے
ذرا دیکھو کبھی گھر سے نکل کر
No comments:
Post a Comment