لاکھ روکیں عدُو نہیں رُکتا
ظلم سے تند خُو نہیں رکتا
اس کشاکش سے دل پریشاں ہے
میں ٹھہرتا ہوں، تُو نہیں رکتا
سب پشیمانیاں ہیں ماضی کی
وہ مِرے روبرُو نہیں رکتا
اشک آنکھوں سے روکنے کیلئے
مے کدے میں سبُو نہیں رکتا
سبز رُت ہے مگر مِرے گھر میں
لمحۂ رنگ و بُو نہیں رکتا
مُسکراتا ہے اس لیے بسمل
زخم سے اب لہُو نہیں رکتا
جانے والوں نے راز کھولا ہے
موجۂ آب جُو نہیں رکتا
قہقہوں کی زبان پر عباس
نغمۂ ہاؤ ہُو نہیں رکتا
حیدر عباس
No comments:
Post a Comment