ایسے نہ دیکھ گُھور کے نا یوں جبیں چڑھا
اب چُوڑیاں اتار، نہ یوں آستیں چڑھا
لب ہائے احمریں پہ یہ تُرشی نہیں بھلی
نصرت کا لب پہ نغمۂ دل آفریں چڑھا
ہے جو ہوا کی دوش پہ چادر کو چھوڑ دے
بالوں میں پُھول ڈال کے چُنری حسیں چڑھا
میری پسند کا بھی تو تھوڑا سا کر خیال
یہ نیلا جوڑا چھوڑ کے یہ آتشیں چڑھا
مانا کہ اختیار میں آیا ہوں دیر سے
وحشت کو روک اپنی یوں سانسیں نہیں چڑھا
ہونٹوں سے چھوڑ دے مجھے دل میں کہیں پہ رکھ
فُرصت ہے مجھ کو دیکھ لے آنکھیں نہیں چڑھا
ابو لویزا علی
No comments:
Post a Comment