Sunday 22 October 2023

مری نظر میں وہ حقدار بادہ ہے ہی نہیں

 مِری نظر میں وہ حق دارِ بادہ ہے ہی نہیں

کہ جس کے ظرف کا دامن کشادہ یے ہی نہیں

تکلفات سے پُر ہیں مزاج لوگوں کے

یہاں کسی کی بھی گُفتار سادہ ہے ہی نہیں

میں آئینے سے گُزرتا ہوں روز کترا کر

کہ خود سے ملنے کا میرا ارادہ ہے ہی نہیں

اگر مگر سے تِرے مجھ کو صاف لگتا ہے

تِرے لہو میں بغاوت کا مادہ ہے ہی نہیں

میں کہکشاں کا مسافر، تُو خاک کا راہی

جو میرا جادہ ہے وہ تیرا جادہ ہے ہی نہیں

سخن کے فیتے سے گُفتارِ شہر ماپ کے دیکھ

کسی کا قد مِرے قد سے زیادہ ہے ہی نہیں

ہم اُس کو پیر سمجھ کر دُعائیں لیتے ہیں

کہ جس کے تن پہ حیا کا لبادہ ہے ہی نہیں

میں سوچتا ہوں کہ تلوار ساتھ لے جاؤں

اگرچہ لڑنے کا میرا ارادہ ہے ہی نہیں

بنائے گا کسے اب شاہ تخت کا وارث

کہ سلطنت کا کوئی شاہزادہ ہے ہی نہیں

برہنہ اس لیے تہذیب ہو گئی مشتاق

کلامِ پاک سے کچھ استفادہ ہے ہی نہیں


حبیب الرحمٰن مشتاق

حبیب الرحمان مشتاق

No comments:

Post a Comment