کرتے تو ہو اس کو نظر انداز عزیزو
یاد آئے گا اِک روز تمہیں ناز عزیزو
دبتی ہے کہاں عشق کی آواز عزیزو
سُولی پہ بھی ہے نغمہ سرا ناز عزیزو
کیا چیز تھی وہ چشمِ فسُوں ساز عزیزو
آیا کبھی اپنے میں نہ پھر ناز عزیزو
دیوارِ خموشی میں کوئی در تو کُھلا ہے
جیسی بھی ہے گُونجی تو ہے آواز عزیزو
آ جائے گی خود طاقتِ پرواز پروں میں
پیدا تو کرو جرأتِ پرواز عزیزو
موت اس لیے ہے میرے تعاقب میں ازل سے
جینے کے سِکھاتا ہوں میں انداز عزیزو
ناز خیالوی
No comments:
Post a Comment