سانپ اور سپیرا
ہم نے مسٹر دیا تھا یہ لکچر
ایک توبہ شکن لٹیرے کو
چھوڑی جو راہ اس پہ اب مت چل
چھوڑ دے بلکہ ہیرے پھیرے کو
فوج ہٹنے سے مطمعن مت ہو
اب پُلس کس رہی ہے گھیرے کو
ہنس کے بولا کہ یہ بھی خوب رہی
شام ہی کہہ دیا سویرے کو
فوج کی بات اور تھی صاحب
اس نے بخشا نہ میرے تیرے کو
اس نے دیکھا نہ گدھا گھوڑا
کس دیا ہاری اور وڈیرے کو
اس کے ہٹتے ہی سین ہے پلٹا
لوٹ آئے ہم اپنے ڈیرے کو
دیکھے بھالے ہیں یہ سول حکام
ان سے خطرہ کہاں لٹیرے کو
ان سے محفوظ ہیں لحیم شحیم
یہ پکڑتے ہیں بس چھریرے کو
آپ بھی سادہ لاح ہیں مسٹر
سانپ کا خوف اور سپیرے کو
مسٹر دہلوی
No comments:
Post a Comment