گھر میں دفتر میں یا دُکان میں ہے
جو جہاں بھی ہے امتحان میں ہے
رُخ بدلنے میں دیر مت کرنا
تیر اب تک تیری کمان میں ہے
خُوشبوؤں کا سفر ہے اور میں ہوں
جب سے گُلشن میرے گُمان میں ہے
کچھ زمیں پر ہیں اب بھی لوگ ایسے
تذکرہ جن کا آسمان میں ہے
آپ کو یاد کر رہے ہیں ہم
کس قدر روشنی مکان میں ہے
اُن پہ مرتا رہوں گا میں تائب
جب تلک جان میری جان میں ہے
خالد اقبال تائب
No comments:
Post a Comment