برق نے جب بھی آنکھ کھولی ہے
آشیانوں نے خاک رولی ہے
یاد کا کیا ہے، آ گئی پھر سے
آنکھ کا کیا ہے پھر سے رو لی ہے
دل کی باتوں کو دل سمجھتا ہے
دل کی بولی عجیب بولی ہے
تم مصلٰی بچھا لو چاہت کا
ہم نے دہلیز دل کی دھو لی ہے
چشمِ یاراں ہے مصر کا بازار
لگ رہی میرے دل کی بولی ہے
اک طرف امن کے ہیں متوالے
اک طرف مُفسدوں کی ٹولی ہے
دل کی کھیتی ہے اشک سے سیراب
ہم نے یادوں کی فصل بو لی ہے
مسکرائے نہ چاند کیوں مفتی
آئی جو چاندنی کی ڈولی ہے
ایاز مفتی
No comments:
Post a Comment