Sunday, 29 October 2023

برق نے جب بھی آنکھ کھولی ہے

 برق نے جب بھی آنکھ کھولی ہے

آشیانوں نے خاک رولی ہے

یاد کا کیا ہے، آ گئی پھر سے

آنکھ کا کیا ہے پھر سے رو لی ہے

دل کی باتوں کو دل سمجھتا ہے

دل کی بولی عجیب بولی ہے

تم مصلٰی بچھا لو چاہت کا

ہم نے دہلیز دل کی دھو لی ہے

چشمِ یاراں ہے مصر کا بازار

لگ رہی میرے دل کی بولی ہے

اک طرف امن کے ہیں متوالے

اک طرف مُفسدوں کی ٹولی ہے

دل کی کھیتی ہے اشک سے سیراب

ہم نے یادوں کی فصل بو لی ہے

مسکرائے نہ چاند کیوں مفتی

آئی جو چاندنی کی ڈولی ہے


ایاز مفتی

No comments:

Post a Comment