کچھ ایسی جفاؤں میں لذت بڑھا دی
کہ جب دل دُکھا، ہم نے ان کو دُعا دی
تِرے عشق میں ہم نے ہستی مٹا دی
نہ بُھولے تجھے، اور دُنیا بُھلا دی
مزا درد کا دے کے تڑپانے والے
مجھے زندگی کی حقیقت بتا دی
پہنچ کر درِ دوست پر مر مٹے ہم
زہے نارسائی،۔ خوشا نامُرادی
جب آساں نظر آئی راہِ محبت
تو خود بیٹھ کر ہم نے مشکل بڑھا دی
وہ عہدِ محبت کی ساری کہانی
ہمیں یاد ہے، اور تم نے بُھلا دی
فنا، عشق میں نام ہے زندگی کا
مُرادِ دلی ہے یہاں نامُرادی
گدا کو بھی اہلِ کرم کم نہ سمجھیں
بہت کچھ دیا جس نے دل سے دعا دی
اب اہلِ چمن مجھ کو روتے ہیں تسکیں
جدائی نے قدرِ محبت بڑھا دی
تسکین قریشی
No comments:
Post a Comment