رات بھر جلتے رہے آنکھیں، دِیا اور خواب بھی
رات بھر ٹھہرا رہا اک تال پر مِضراب بھی
رات بھر خالی مکاں میں خامشی کا شور تھا
رات بھر اُلجھے رہے میں اور مِرے احباب بھی
رات بھر پڑھتا رہا یہ دل صحیفہ ہِجر کا
رات بھر پھر نم رہے اوراق بھی ابواب بھی
رات بھر بُوندوں کی ہر سُو دستکیں تھیں، شور تھا
رات بھر ڈُوبا رہا تھا جھیل میں مہ تاب بھی
رات بھر جلتا رہا اس بام پر بھی اک دِیا
رات بھر دہلیز پر بیٹھے رہے کچھ خواب بھی
شاہین کاظمی
No comments:
Post a Comment