فلمی گیت
فضا بھی ہے جواں جواں ہوا بھی ہے رواں رواں
سنا رہا ہے یہ سماں، سنی سنی سی داستاں
پکارتے ہیں دور سے وہ قافلے بہار کے
بکھر گئے ہیں رنگ سے، کسی کے انتظار کے
لہر لہر کے ہونٹ پر وفا کی ہیں کہانیاں
سنا رہا ہے یہ سماں سنی سنی سی داستاں
بجھی مگر بجھی نہیں، نہ جانے کیسی پیاس ہے
قرار دل سے آج بھی، نہ دور ہے نہ پاس ہے
یہ کھیل دھوپ چھاؤں کا، یہ قربتیں یہ دوریاں
سنا رہا ہے یہ سماں سنی سنی سی داستاں
ہر ایک پل کو ڈھونڈتا، ہر ایک پل چلا گیا
ہر ایک پل فراق کا، ہر ایک پل وصال کا
ہر ایک پل گزر گیا، بنا کے دل پہ ایک نشاں
سنا رہا ہے یہ سماں سنی سنی سی داستاں
حسن کمال
No comments:
Post a Comment