Monday, 3 August 2020

وہ دوست تھا تو اسی کو عدو بھی ہونا تھا

 وہ دوست تھا تو اسی کو عدو بھی ہونا تھا

لہو پہن کے مجھے سرخرو بھی ہونا تھا

سنہری ہاتھ میں تازہ لہو کی فصل نہ دی

کہ اپنے حق کے لیے جنگجو بھی ہونا تھا

بگولہ بن کے سمندر میں خاک اڑانا تھی

کہ لہر لہر مجھے تند خو بھی ہونا تھا

مِرے ہی حرف دکھاتے تھے میری شکل مجھے

یہ اشتہار مِرے روبرو بھی ہونا تھا

کشش تھی پھول سی اس میں تو لا محالہ مجھے

اسیر رنگ، گرفتار بُو بھی ہونا تھا

سزا تو ملنا تھی مجھ کو برہنہ لفظوں کی

زباں کے ساتھ لبوں کو رفو بھی ہونا تھا

سفر کا بوجھ اٹھانے سے پیشتر ساجد

مزاج دانِ رہِ جستجو بھی ہونا تھا


اقبال ساجد

No comments:

Post a Comment