چشمِ نم، آگہی، چاہتیں، بارشیں
دوریاں، حسرتیں، قربتیں، بارشیں
ٹوٹے یہ خامشی، کوئی ہلچل مچا
ہلکی رم جھم سی ہے کب ہوئیں بارشیں
نغمہ زن ہے فضا رقص میں ہے ہوا
پھول کلیوں کے ہونٹوں پہ مسکان ہے
مست سندیسے لانے لگیں بارشیں
تیری شہناز عشقِ مزمل میں گم
راز کھولیں نہ اس کا، سنیں بارشیں
شہناز مزمل
No comments:
Post a Comment