Wednesday, 7 September 2016

کوئی صورت آشنا ملتا نہیں ہے کیا کریں

کوئی صورت آشنا ملتا نہیں ہے، کیا کریں
چلتے چلتے بھیڑ میں کھو جائیں اب ایسا کریں
دیکھنا باہر، کوئی سائل کھڑا ہے دیر سے
یہ مکاں خالی ہے، کہہ دیں اور اسے چلتا کریں
پہلے خود کو اک پہاڑی سے گرا لیں اور اسکے بعد
نیچے آ کر لاش کا اپنی ہی نظارا کریں
خود تعاقب میں رہیں اپنے تو پھر کچھ ڈر نہیں
یہ زمیں پیچھا کرے یا آسماں پیچھا کریں
جن کتابوں کو کوئی پڑھتا نہیں، ان کو پڑھیں
ایسی باتیں جو کوئی لکھتا نہیں، لکھا کریں
آسماں اک اجنبی ہے، اس زمیں پر آج بھی
کیوں نہ اب اس کا سمندر سے کوئی رشتا کریں
اپنے خاکے میں خود اپنا رنگ بھرنے کو متینؔ
آؤ خود کو اب سرِ بازار ہم رسوا کریں

غیاث متین

No comments:

Post a Comment