زمیں کے ساتھ فلک کے سفر میں ہم بھی ہیں
نفس نصیب سہی، بال و پر میں ہم بھی ہیں
وہیں سے لوٹ گئی راستوں کی تنہائی
جہاں پہ اس نے یہ جانا سفر میں ہم بھی ہیں
تُو وہ شجر، جو صدا برگ و بار دیتا ہے
جسے کہیں سے سمندر نے لا کے پھینک دیا
تمہارے ساتھ اک ایسے ہی گھر میں ہم بھی ہیں
کتاب تھے تو پڑھے جا سکے نہ دنیا سے
لو اب چراغ ہوئے رہگزر میں ہم بھی ہیں
خیال آگ ہے، شعلہ ہے فکر، لَو الفاظ
یہ سب ہنر ہیں تو اس ہنر میں ہم بھی ہیں
متینؔ شہر بھی صحرا نژاد ہے اتنا
کہ سنگ و خِشت میں دیوار و در میں ہم بھی ہیں
غیاث متین
No comments:
Post a Comment