دو برس عشق آزما چکے ہیں
ہم محبت سے باز آ چکے ہیں
چاۓ آنے میں دیر ہو گئی تھی
چاہنے والے زہر کھا چکے ہیں
کس لیے میں دلیل ضائع کروں
روح کے اس اجاڑ قصبے تک
جسم کے راستے سے جا چکے ہیں
پھینک آبِ حیات،۔ نام نہ لے
زندگی! تجھ کو آزما چکے ہیں
اب حویلی پہ سانپ آئیں گے
گاؤں والے تو شہر جا چکے ہیں
احمد عطاءاللہ
No comments:
Post a Comment