داستاں پھر بھی ہے ادھوری سی
بات سے بات گو نکالی گئی
ہم نے ہر دن کیا تھا تیرے نام
ہاں مگر رات بھی چرا لی گئی
لڑکھڑائی زبان جس لمحے
بات تم سے نہ پھر سنبھالی گئی
زندگی یوں بھی ان پہ وار چکے
موت بھی آئی تو نہ ٹالی گئی
ہاتھ روکا نہ بڑھ کے اپنوں نے
مار پھر وقت سے بھی کھا لی گئی
غزالہ فیضی
No comments:
Post a Comment