Monday, 3 August 2020

آؤ بات کرتے ہیں

آؤ بات کرتے ہیں

زندگی کی راہوں میں
یونہی آنے جانے میں
لوگ کتنے ملتے ہیں
بات ہم سے کرتے ہیں
کوئی اس میں جھوٹی ہے اور کوئی سچی ہے
دل پہ ہاتھ رکھ دے جو بات وہ ہی اچھی ہے

بات سامنے بھی ہے
بات پیٹھ پیچھے بھی
کپکپاتے ہونٹوں پر
سرسراتے لفظوں سی
ان کہی نہ رہ جائے بات نرم جذبوں کی
بات گو کہ سادہ ہے
بات دل لگی بھی ہے
بے رخی بھی ہے اس میں
دلبری زیادہ ہے
بات شعر و نغمہ سی
شاعروں نے جب بھی کی
سحر طاری کر دے گی
ساحروں نے جب بھی کی
بات رت جگا بھی ہے بات مے کدہ بھی ہے
ہوش میں نہ آنے دے بات وہ نشہ بھی ہے
بات وار کرتی ہے
گھاؤ بھی لگاتی ہے
اور دل کے ٹکڑوں کو جوڑتی بھی جاتی ہے
بات کرتے رہنے سے
وقت کٹنے لگتے ہیں
تلخ بات سہنے سے فاصلے سمٹتے ہیں
خامشی کے جنگل میں گھومتے ہی رہنے پر
پنچھی اپنی آوازیں خود ہی بھول جاتے ہیں
حبس کی ہواؤں میں زرد پھول کھلتے ہیں
زندگی کی راہوں میں
تھوڑی دیر کو چاہے
ساتھ ساتھ چلتے ہیں
آؤ بات کرتے ہیں

غزالہ فیضی

No comments:

Post a Comment