Friday, 2 October 2020

شام وعدہ کے گزرتے پل ذرا آہستہ چل

 شامِ وعدہ کے گزرتے پل، ذرا آہستہ چل

کیا خبر پھر کون ہو گا کل، ذرا آہستہ چل

زخم پر رہنے دے تھوڑی دیر تک مرہم کی تہ

اے شفق کے ڈوبتے بادل، ذرا آہستہ چل

کچھ نظر آتا نہیں آنکھوں کو اے دریائے غم

سارے منظر ہو گئے جل تھل، ذرا آہستہ چل

ہر قدم پر اک نئی منزل کی خواہش ہے تجھے

اے دلِ آوارہ!اے پاگل، ذرا آہستہ چل

اے تھکے ہارے مسافر! یہ سوادِ شام ہے

پھر کہاں یہ سُرمئ آنچل، ذرا آہستہ چل

اس سے آگے دھوپ کا ہے ایک دشتِ بے اماں

پاؤں پڑتا ہے گھنا جنگل، ذرا آہستہ چل


جمیل یوسف

No comments:

Post a Comment