Friday 30 October 2020

پھر دل کو دھڑکنا یاد آیا

پھر دل کو دھڑکنا یاد آیا


جب درد پرانے ہو بیٹھے

جب یاد کا جگنو راکھ ہوا

جب آنکھ میں آنسو برف ہوئے

جب زخم سے دل مانوس ہوا

تب مجھ پہ کھُلا میں زندہ ہوں

پھر دل کو دھڑکنا یاد آیا


جب کرب کی لمبی راہوں میں

احساس کے بال سفید ہوئے

جب آنکھیں بے سیلاب ہوئیں

جب چاند چڑھا بے دردی کا

جب ریت پہ لکھی یادوں کو

بے مہر ہوا نے چھین لیا

جب یاد رُتیں بے داد ہوئیں

تب مجھ پہ کھُلا میں زندہ ہوں

پھر دل کو دھڑکنا یاد آیا

جب آنکھیں کچھ آباد ہوئیں

جب مجھ پہ کھُلا میں زندہ ہوں

احساس کا بچپن جاگ پڑا

پھرجذبے بے تقویم ہوئے

پھر وقت نے کچھ انگڑائی لی

پھر سوچ کی قبر سے دھول اڑی

پھر پیاس کا برزخ بھول گیا

ایک ہجر سےکیا آزاد ہوئے

سو ہجر نئے ایجاد ہوئے

پھر اشک میں دریا قید ہوا

پھر دھڑکن میں بھونچال پڑے

پھر عشق کا جوگی گلیوں میں

تقدیر کے سانپ اٹھا لایا

پھر ہوش کا جنگل سبز ہوا

پھر شوق درینہ جاگ اٹھا

پھر زلف کے تیور شام بنے

اس شام میں پھر مہتاب چڑھا

پھر ہونٹ کی لرزش، گیت بنی

پھر شعر، شعور کا ورد ہوا

پھر خون سے لکھے جذبے بھی نیلام ہوئے

پھر درد زلیخا بن بیٹھا

پھر قرب کا کرب جوان ہوا

پھر مجھ پہ کھُلا میں زندہ ہوں

کچھ ہجر کی نبضیں تیز ہوئیں

جب قید کو تازہ عمر ملی

اس قیدی عمر کے بختوں نے

اک شامِ سہور سے پوچھ لیا

قید ہی رہنا تھا تو ہمیں

وہ پچھلا ہجر ہی کافی تھا

کیوں پچھلے جال کو چھوڑا تھا

کس عہد پہ پنجرہ توڑا تھا

جب جال تیری کمزوری تھے 

صیاد کو کیوں بدنام کیا

اب سوچ رہا ہوں مدت سے

کیوں مجھ پہ کھُلا میں زندہ ہوں

کیوں دل کو دھڑکنا یاد آیا


نامعلوم 

No comments:

Post a Comment