Friday, 30 October 2020

تانے بانے میں الجھی جالے بنتی ہوں

 قلبِ ماہیت


تانے بانے میں الجھی جالے بنتی ہوں

مکڑی جیسی لگتی ہو، خود سے سنتی ہوں

یہ تالاب بھی کہتا ہے

جس کے بھیتر عکس میرا چھپ رہتا ہے

اصل میں میں اک تتلی ہوں

گل کو ڈھونڈنے نکلی ہوں

چہکتے مہکتے خوشنما گل

رنگ برنگے تازہ نرم اور کھلے کھلے

صبح سویرے شبنم جن سے گلے ملے

مہں سچ مچ کی تتلی ہوں

متوالی آزادی کی، پیاری سی شہزادی سی

ادھر سے ادھر کو اڑنے پھرنے، گنگنانے والی ہاتھ نہ آنے والی

زندگی سے بھر پور، آرزو سے چور، محبت سے مخمور

تتلی ہی تو تھی جب میں نے جنم لیا

آغازِ سفر کیا

پروں کو اپنے ہولے ہولے آزمایا، پھڑپھڑایا

کتنے رنگ جھڑے تھے مجھ سے

آج مگر ہوں جکڑی ہوئی

جگراتوں سے سکڑی ہوئی

کوئلہ بھئی نہ لکڑی ہوئی

اب تالاب بھی مجھ سے کچھ کترانے لگا ہے

عکس مِرا ہی مجھ سے چھپ کے ڈرنے لگا ہے

اک کنکر جو گرا تو سب کچھ بدل گیا

جیون کے بھنور کا چکر ایسا چلا

چپکے سے مجھے نگل گیا

کہاں سے آئی یہ بدصورت سی مکڑی

جالے کے جو بیچوں بیچ پھنسی بیٹھی


نیلم احمد بشیر

No comments:

Post a Comment