Friday, 30 October 2020

جدائی کی کوئی انت نہیں

جدائی کی کوئی انت نہیں


صبح سے نکلا ہوا ہے گھر سے

رات بھی بیت چلی ہے اب تو

جانے کس بیتے ہوئے وصل کے کمہلائے ہوئے در پہ پڑا ہو گا

جانے کس الجھے ہوئے ہجر کے زانو پہ ذرا ٹیک کے سر

چین سے سویا ہو گا

دل ابھی لوٹا نہیں

صبح سے نکلا ہوا ہے گھر

آ گیا ہو گا کسی درد کے بہلاوے میں

اور کسی راہ کے ویران کنارے پہ پڑا خواب بلکتا ہو گا

آتے جاتے ہر اک مسافر کی طرف

ایک سہمی ہوئی امید سے تکتا ہو گا

سوچتا ہو گا جدائی کی کوئی انت نہیں


فرحت عباس شاہ

No comments:

Post a Comment