Thursday 29 October 2020

کوئی آواز نہ آہٹ نہ خیال ایسے میں

 کوئی آواز، نہ آہٹ، نہ خیال ایسے میں

رات مہکی ہے مگر جی ہے نڈھال ایسے میں

میرے اطراف تو گرتی ہوئی دیواریں ہیں

سایۂ عمر رواں مجھ کو سنبھال ایسے میں

جب بھی چڑھتے ہوئے دریا میں سفینہ اترا

یاد آیا تِرے لہجے کا کمال ایسے میں

آنکھ کھلتی ہے تو سب خواب بکھر جاتے ہیں

سوچتا ہوں کہ بچھا دوں کوئی جال ایسے میں

مدتوں بعد اگر سامنے آئے ہم تم

دھندلے دھندلے سے ملیں گے خد و خال ایسے میں

ہجر کے پھول میں ہے درد کی باسی خوشبو

موسم وصل کوئی تازہ ملال ایسے میں


نصیر ترابی

No comments:

Post a Comment