Saturday 31 October 2020

سانولی تو مرے پہلو میں ہے

 ان کہی


سانولی! تو مِرے پہلو میں ہے

لیکن تِری پیاسی آنکھیں

کبھی دیوار کو تکتی ہیں

کبھی جانب در دیکھتی ہیں

مجھ سے اس طرح گریزاں جیسے

انہیں مجھ سے نہیں دیوار سے کچھ کہنا ہے

یا یہ پنچھی ہیں جنہیں

ایک ہی پرواز میں اڑ جانا ہے

ہاتھ نہیں آنا ہے

اے میری سانولی! ان آنکھوں کے دونوں پنچھی)

(گر اڑے بھی تو میرے دل کی طرف آئیں گے

سانولی! مجھ کو تیری آنکھوں نے

وہ فسانے بھی سنائے کہ جنہیں

کہنا چاہیں تو تیرے ہونٹ فقط 'جی' کہہ کر

اور افسانوں کو دہرانے لگیں

یا تو بے گانوں کی مانند میرے پاس سے گزرے

تو کبھی

میری طرف دیکھ کے چلنا بھی گوارا نہ کرے

لیکن آنکھوں میں چمک آ جائے

مصلحت ہونٹ تو سی لے مگر ان آنکھوں کو

کیسے خاموش رکھے کیسے انہیں سمجھائے

بات کرتی ہے تو آنکھیں نہیں ملنے دیتی

سانولی ڈرتی ہے دل نین جھروکوں میں نہ آئے


شہزاد احمد

No comments:

Post a Comment