Friday, 23 October 2020

جو روح کے سفر میں بدن کا شریک تھا

 جو روح کے سفر میں بدن کا شریک تھا

دیکھی نہ ہم نے جس کی جبیں پر کبھی شکن

وہ دل کی ایک ایک چبھن کا شریک تھا

اک لمحے کو وہ آیا تصور میں تو لگا

جیسے وہ سارے دن کی تھکن کا شریک تھا

خاموشیوں سے آج ہیں ہم محو گفتگو

وہ ساتھ ہی نہیں جو سخن کا شریک تھا

اللہ اس چراغ کو روشن رکھے سدا

جو تیرگی میں پہلی کرن کا شریک تھا

سیراب کر گیا کسی آنگن کو جو عدیل

وہ میری پیاس میری گھٹن کا شریک تھا


عدیل زیدی

No comments:

Post a Comment