جو روح کے سفر میں بدن کا شریک تھا
دیکھی نہ ہم نے جس کی جبیں پر کبھی شکن
وہ دل کی ایک ایک چبھن کا شریک تھا
اک لمحے کو وہ آیا تصور میں تو لگا
جیسے وہ سارے دن کی تھکن کا شریک تھا
خاموشیوں سے آج ہیں ہم محو گفتگو
وہ ساتھ ہی نہیں جو سخن کا شریک تھا
اللہ اس چراغ کو روشن رکھے سدا
جو تیرگی میں پہلی کرن کا شریک تھا
سیراب کر گیا کسی آنگن کو جو عدیل
وہ میری پیاس میری گھٹن کا شریک تھا
عدیل زیدی
No comments:
Post a Comment