Friday 30 October 2020

اب کوئی پھول مرے درد کے دریا میں نہیں

 حیرت خانۂ امروز


اب کوئی پھول مرے درد کے دریا میں نہیں

اب کوئی زخم مرے ذہن کے صحرا میں نہیں

نہ کسی جنت ارضی کا حوالہ مجھ سے

نہ جہنم کا دہکتا ہوا شعلہ کوئی

میرے احساس کے پردے پہ رواں رہتا ہے

میں کہاں ہوں؟ مجھے معلوم نہیں

بولتے لفظ بھی خاموش تمنائی ہیں

جاگتے خواب کی تعبیر یہی ہے شاید

میری تقدیر یہی ہے شاید

میں جسے دیکھنا چاہوں مجھے اندھا کہہ دے

کون ہوں میں مجھے اے دیدۂ بینا کہہ دے

زندگی کیوں کسی مفہوم سے عاری ہی رہی

دھوپ میں جسم سلگتے ہی چلے جاتے ہیں

موت کا خوف سمٹتا ہے بکھر جاتا ہے

فاختہ جیسے کسی پیڑ کی شاخوں میں چھپی بیٹھی ہو

سانس سینے میں کسی تیر کی مانند اتر جاتی ہے

منہ چھپائے ہوئے سورج بھی فنا کی تصویر

پیاس بن کر کسی دریا میں اتر جاتا ہے

آس نے یاس کے مہتاب سے خوشبو مانگی

چہرۂ گل پہ کسی قطرۂ شبنم کی دعا اتری ہے


احمد ظفر

No comments:

Post a Comment