آنکھوں کو پھوڑ ڈالوں یا دل کو توڑ ڈالوں
یا عشق کی پکڑ کر گردن مروڑ ڈالوں
یک قطرہ خوں بغل میں ہے دل مِرے سو اس کو
پلکوں سے تیری خاطر کیوں کر نچوڑ ڈالوں
وہ آہوئے رمیدہ مل جائے تیرہ شب گر
کتا بنوں شکاری اس کو بھنبھوڑ ڈالوں
خیاط نے قضا کے جامہ سِیا جو میرا
آیا نہ جی میں اتنا کیا اس میں جوڑ ڈالوں
وہ سنگ دل ہوا ہے اک سنگ دل پہ عاشق
آتا ہے جی میں سر کو پتھروں سے پھوڑ ڈالوں
تقصیر مصحفی کی ہووے معاف صاحب
فرماؤ تو تمہارے لا اس کو گوڑ ڈالوں
غلام ہمدانی مصحفی
No comments:
Post a Comment