آگہی کا عذاب کیا جانیں
آگہی کا عذاب کیا جانیں
دل کی بستی میں کتنے نوحے ہیں
رکھنے والے حساب کیا جانیں
آگہی کا عذاب کیا جانیں
رونقیں کتنی ہیں دل کی نگری میں
وجد میں ہے لہو کتنا
ہیں جو جل کے کباب وہ کیا جانیں
رکھنے والے حساب کیا جانیں
جو کہ کرتے دیدار ہر پل ہیں
بند آنکھوں میں جو یار رکھتے ہیں
ان کی حسرتیں ان کے خواب کیا جانیں
رکھنے والے حساب کیا جانیں
خامشی جن کی کرتی ہے کلام
لفظ جن کے طواف کرتے ہیں
ہیں جو لکھتے کتاب وہ یہ کیا جانیں
رکھنے والے حساب کیا جانیں
جیسے قضائیں قبول ہوتی ہیں
وہ مزہ ہے تیری سنگت میں
گننے والے ثواب یہ کیا جانیں
رکھنے والے حساب کیا جانیں
جن کی باتوں سے پھول برسے تھے
آج ان کی تُربت پہ تاج رکھے ہیں
منہ کہے کے نواب یہ کیا جانیں
رکھنے والے حساب کیا جانیں
آگہی کا عذاب کیا جانیں
نامعلوم
No comments:
Post a Comment