وہ حال ہے کہ تلاشِ نجات کی جائے
کسی فقیر دعا گو سے بات کی جائے
یہ شہر کیسا خوش اوقات تھا اور اب کیا ہے
جو دن بھی نکلے تو وحشت نہ رات کی جائے
کوئی تو شکل گماں ہو، کوئی تو حیلۂ خیر
کسی طرح تو بسر اب حیات کی جائے
گھروں میں وقت گزاری کا اب ہے شغل ہی کیا
یہی کہ گفتگوئے حادثات کی جائے
اگر یہی ہے اب ایفائے عہد میں پس و پیش
تو ختم رسم و رہِ التفات کی جائے
محشر بدایونی
No comments:
Post a Comment