Friday, 23 October 2020

رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے

 رنج کتنا بھی کریں ان کا زمانے والے

جانے والے تو نہیں لوٹ کے آنے والے

کیسی بے فیض سی رہ جاتی ہے دل کی بستی

کیسے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے

ایک پل چھین کے انسان کو لے جاتا ہے

پیچھے رہ جاتے ہیں سب ساتھ نبھانے والے

لوگ کہتے ہیں کہ تو دور افق پار گیا

کیا کہوں اے مرے دل میں اتر آنے والے

جانے والے تری مرقد پہ کھڑا سوچتا ہوں

خواب ہی ہوگئے تعبیر بتانے والے

ہر نیا زخم کسی اور کے سینے کا سعود

چھیڑ جاتا ہے مرے زخم پرانے والے


سعود عثمانی

No comments:

Post a Comment