Tuesday 27 October 2020

یہ جو تم مجھ سے گریزاں ہو میری بات سنو

 متاعِ الفاظ

یہ جو تم مجھ سے گریزاں ہو، میری بات سنو

ہم اسی چھوٹی سی دنیا کے کسی رستے پر

اتفاقاً کبھی بُھولے سے کہیں مِل جائیں

کیا ہی اچھا ہو کہ ہم دوسرے لوگوں کی طرح

کچھ تکلف سے سہی ٹھہر کے کچھ بات کریں

اور اس عرصۂ اخلاق و مروت میں کبھی

ایک پل کے لیے وہ ساعتِ نازک آ جائے

ناخنِ لفظ کسی یاد کے زخموں کو چُھوئے

ایک جھجکتا ہوا جملہ کوئی دُکھ دے جائے

کون جانے گا کہ ہم دونوں پہ کیا بیتی ہے؟

یہ جو تم مجھ سے گریزاں ہو، میری بات سنو

اس خموشی کے اندھیروں سے نکل آئیں چلو

کسی سُلگتے ہوئے لہجے سے چراغاں کر لیں

چن لیں پھولوں کی طرح ہم بھی متاعِ الفاظ

اپنے اجڑے ہوئے دامن کو گلستاں کر لیں

یہ جو تم مجھ سے گریزاں ہو، میری بات سنو

دولتِ درد بڑی چیز ہے اقرار کرو

نعمتِ غم بڑی نعمت ہے یہ اظہار کرو

لفظ پیماں بھی اقرار بھی اظہار بھی ہیں

طاقتِ صبر اگر ہو تو یہ غمخوار بھی ہیں

ہاتھ خالی ہوں تو یہ جنسِ گراں بار بھی ہیں

پاس کوئی بھی نہ ہو پھر تو یہ دلدار بھی ہیں

یہ جو تم مجھ سے گریزاں ہو میری بات سنو


زہرا نگاہ

No comments:

Post a Comment