Friday, 30 October 2020

‎ہم بڑے ہو گئے

 ‎ہم بڑے ہو گئے

‎مسکراہٹ، تبسم، ہنسی، قہقہے

‎سب کے سب کھو گئے

‎ہم بڑے ہو گئے

‎ذمہ داری مسلسل نبھاتے رہیں

‎بوجھ اوروں کا خود ہی اٹھاتے رہیں

‎اپنا دکھ سوچ کر روئیں تنہائی میں

‎محفلوں میں مگر مسکراتے رہیں

‎کتنے لوگوں سے اب مختلف ہو گئے

‎ہم بڑے ہو گئے

‎اور کتنی مسافت ہے باقی ابھی

‎زندگی کی حرارت ہے باقی ابھی

‎وہ جو ہم سے بڑے ہیں سلامت رہیں

‎ان سبھی کی ضرورت ہے باقی ابھی

‎جو تھپک کر سلاتے تھے

‎ خود سو گئے

‎ہم بڑے ہو گئے

‎ختم ہونے کو اب زندگانی ہوئی

‎جانے کب آئی اور کب جوانی ہوئی

‎دیکھتے دیکھتے کیا سے کیا ہو گئے

‎جو حقیقت تھی اب وہ کہانی ہوئی

‎منزلیں مل گئیں

‎ہمسفر کھو گئے

‎ہم بڑے ہو گئے


شمیم شیرازی

No comments:

Post a Comment