ہم بڑے ہو گئے
مسکراہٹ، تبسم، ہنسی، قہقہے
سب کے سب کھو گئے
ہم بڑے ہو گئے
ذمہ داری مسلسل نبھاتے رہیں
بوجھ اوروں کا خود ہی اٹھاتے رہیں
اپنا دکھ سوچ کر روئیں تنہائی میں
محفلوں میں مگر مسکراتے رہیں
کتنے لوگوں سے اب مختلف ہو گئے
ہم بڑے ہو گئے
اور کتنی مسافت ہے باقی ابھی
زندگی کی حرارت ہے باقی ابھی
وہ جو ہم سے بڑے ہیں سلامت رہیں
ان سبھی کی ضرورت ہے باقی ابھی
جو تھپک کر سلاتے تھے
خود سو گئے
ہم بڑے ہو گئے
ختم ہونے کو اب زندگانی ہوئی
جانے کب آئی اور کب جوانی ہوئی
دیکھتے دیکھتے کیا سے کیا ہو گئے
جو حقیقت تھی اب وہ کہانی ہوئی
منزلیں مل گئیں
ہمسفر کھو گئے
ہم بڑے ہو گئے
شمیم شیرازی
No comments:
Post a Comment