بے گھری ساتھ ہی ہوتی ہے جدھر جاتے ہیں
یعنی ہم گھر سے بھی چلتے ہیں تو گھر جاتے ہیں
تم بھی رستے سے کہیں لوٹ کے مت آجانا
اس جگہ لوگ صدا دے کے مُکر جاتے ہیں
یہ میرا حوصلہ ہے مر کے بھی زندہ ہوں ابھی
ورنہ کچھ لوگ تو جیتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہائے وہ لوگ سہولت ہے جنہیں چھونے کی
ہم تیرا نام بھی لیتے ہوئے ڈر جاتے ہیں
یار تو میرے لیے کتنا لڑے گا سب سے
میں تو کہتا ہوں محبت سے مکر جاتے ہیں
یہ جو میں رک کے تجھے دیکھتا ہوں، چلتا ہوں
جن کو جانا ہو وہ چپ چاپ گزر جاتے ہیں
دانش نقوی
No comments:
Post a Comment