Friday 23 October 2020

بے گھری ساتھ ہی ہوتی ہے جدھر جاتے ہیں

 بے گھری ساتھ ہی ہوتی ہے جدھر جاتے ہیں

یعنی ہم گھر سے بھی چلتے ہیں تو گھر جاتے ہیں

تم بھی رستے سے کہیں لوٹ کے مت آجانا

اس جگہ لوگ صدا دے کے مُکر جاتے ہیں

یہ میرا حوصلہ ہے مر کے بھی زندہ ہوں ابھی

ورنہ کچھ لوگ تو جیتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہائے وہ لوگ سہولت ہے جنہیں چھونے کی

ہم تیرا نام بھی لیتے ہوئے ڈر جاتے ہیں

یار تو میرے لیے کتنا لڑے گا سب سے

میں تو کہتا ہوں محبت سے مکر جاتے ہیں

یہ جو میں رک کے تجھے دیکھتا ہوں، چلتا ہوں

جن کو جانا ہو وہ چپ چاپ گزر جاتے ہیں


دانش نقوی

No comments:

Post a Comment