وہ دلگداز تھا سو اس نے دل لگی کر لی
خموش بھی رہا اور مجھ سے بات بھی کر لی
نکال پائے نہ خود کو حصار سے اس کے
غنیمِ جان سے پھر ہم نے دوستی کر لی
میں اس کے سامنے بیٹھا رہا تو گُل تھا چراغ
میں اٹھ کے نکلا تو ظالم نے روشنی کر لی
مجھے بھی عشق میں دستار ملنے والی تھی
مگر مزاج مرا، میں نے دشمنی کر لی
میں مر چکا تو سبھی دیکھتے تھے اس نے بھی
نگاہ چہرے پہ بس ایک سرسری کر لی
مِرے عدو کے ہی ہاتھوں میں مجھ کو بیچ دیا
ہے اطمینان اسے اس نے خود سری کر لی
وہ خود بھی اجنبی لہجہ بھی اجنبی اس کا
ہنر تھا اس کا، نگہ اس نے اجنبی کر لی
وہ مجھ کو بیچنے بازار مصر میں لایا
فقیر شہر نے یوسف کی پیروی کر لی
پیام آنے کا بھیجا تھا اس نے سو میں نے
ہے شکر موت جو دو دن کو ملتوی کر لی
ہر اک قدم پہ ہوا ہے خلوص قتل مِرا
ہے پیدا جب سے طبیعت میں مخلصی کر لی
جب اس سے ہو نہیں پائے الگ تو ایسے کیا
خود اپنے آپ سے ہم نے علیحدگی کر لی
یہ راز علم نہیں مجھ کو چھوڑ جانے کی
کیوں معذرت تھی بھلا اس نے پیشگی کر لی
کچھ ایسا عشق تھا شبنم کے لفظ سے اس کو
بغیر روئے ہوئے آنکھ شبنمی کر لی
زباں میں آتا نہیں ذائقہ ہے چاہت کا
یہ بات اس نے عجب غیر منطقی کر لی
نزولِ سورہ والعشق کا ملا اعزاز
محبتوں میں بھی ہم نے پیمبری کر لی
مِرے چراغ نے سورج کا راستہ روکا
مِرے چراغ نے پھر آپ خود کشی کر لی
اس عہد میں یہی معیار ہو گیا صفدر
ملا نہ کام جسے اس نے شاعری کر لی
صفدر ہمدانی
No comments:
Post a Comment