ایسے بے مہر زمانے سے وفا مانگتا ہے
دل بھی سادہ ہے خلاؤں میں ہوا مانگتا ہے
اس سے ہم عشق پرستوں کا تقابل کیسا
شیخ! تو اپنی عبادت کا صلہ مانگتا ہے
جا کسی اور سے لے نسبتِ افلاک میاں
محتسب! دامنِ تعزیر کشادہ رکھنا
شہر کا شہر بغاوت کی سزا مانگتا ہے
خوف اتنا ہے کہ بازاروں کے سینے ساکت
قریہ قریہ کسی باغی کی صدا مانگتا ہے
لاکھ سمجھاؤں، محبت کی جھلک پاتے ہی
دل وہ ترسا ہوا سائل ہے کہ جا مانگتا ہے
کچھ نہ مل پائے تو مجبورِ طبیعت انساں
مسجد و دیر و کلیسا سے دغا مانگتا ہے
میری آنکھیں تیرے چہرے کی تمازت چاہیں
میرا چہرہ تِرے آنچل کی ہوا مانگتا ہے
تجھ سے جینے کے جو اسباب طلب کرتا تھا
اب وہ جی جان سے مرنے کی دعا مانگتا ہے
شہزاد نیر
No comments:
Post a Comment