Monday, 26 October 2020

ایسے بے مہر زمانے سے وفا مانگتا ہے

ایسے بے مہر زمانے سے وفا مانگتا ہے
دل بھی سادہ ہے خلاؤں میں ہوا مانگتا ہے
اس سے ہم عشق پرستوں کا تقابل کیسا
شیخ! تو اپنی عبادت کا صلہ مانگتا ہے
جا کسی اور سے لے نسبتِ افلاک میاں
ہم زمیں زاد فقیروں سے یہ کیا مانگتا ہے
محتسب! دامنِ تعزیر کشادہ رکھنا
شہر کا شہر بغاوت کی سزا مانگتا ہے
خوف اتنا ہے کہ بازاروں کے سینے ساکت
قریہ قریہ کسی باغی کی صدا مانگتا ہے
لاکھ سمجھاؤں، محبت کی جھلک پاتے ہی
دل وہ ترسا ہوا سائل ہے کہ جا مانگتا ہے
کچھ نہ مل پائے تو مجبورِ طبیعت انساں
مسجد و دیر و کلیسا سے دغا مانگتا ہے
میری آنکھیں تیرے چہرے کی تمازت چاہیں
میرا چہرہ تِرے آنچل کی ہوا مانگتا ہے
تجھ سے جینے کے جو اسباب طلب کرتا تھا
اب وہ جی جان سے مرنے کی دعا مانگتا ہے

شہزاد نیر

No comments:

Post a Comment