گنہگاروں کو تعزیریں سنائی جا رہی تھیں
وفا کی آخری شمعیں بجھائی جا رہی تھیں
جنازے آدمیت کے اٹھائے جا رہے تھے
بغاوت خیز آوازیں دبائی جا رہی تھیں
بچھائے جا رہے تھے جال دیوانوں کی خاطر
خرد مندوں کی تقدیریں سلائی جا رہی تھیں
عدالت میں انہی پر جرم ثابت ہو رہے تھے
سروں سے جن کے دستاریں گرائی جا رہی تھیں
گھروں کے صحن اتنے تنگ ہوتے جا رہے تھے
دلوں میں جتنی دیواریں بنائی جا رہی تھیں
کہیں نزدیک گہری نیند منصف سو رہے تھے
کہیں نزدیک زنجیریں ہلائی جا رہی تھیں
سرور ارمان
No comments:
Post a Comment