Thursday, 22 October 2020

گنہگاروں کو تعزیریں سنائی جا رہی تھیں

 گنہگاروں کو تعزیریں سنائی جا رہی تھیں

وفا کی آخری شمعیں بجھائی جا رہی تھیں

جنازے آدمیت کے اٹھائے جا رہے تھے

بغاوت خیز آوازیں دبائی جا رہی تھیں

بچھائے جا رہے تھے جال دیوانوں کی خاطر

خرد مندوں کی تقدیریں سلائی جا رہی تھیں

عدالت میں انہی پر جرم ثابت ہو رہے تھے

سروں سے جن کے دستاریں گرائی جا رہی تھیں

گھروں کے صحن اتنے تنگ ہوتے جا رہے تھے

دلوں میں جتنی دیواریں بنائی جا رہی تھیں

کہیں نزدیک گہری نیند منصف سو رہے تھے

کہیں نزدیک زنجیریں ہلائی جا رہی تھیں


سرور ارمان

No comments:

Post a Comment