Saturday 31 October 2020

ایک وحشت کھڑی ہے ہر اک موڑ پر

 شہرِ برباد میں


شہرِ برباد میں

ایک وحشت کھڑی ہے ہر اک موڑ پر

گردِ ناکامئ عمر کی کوئی سوغات لے کر

ہمارے دلوں کی اداسی

یونہی بے سبب تو نہ تھی

تم نے سمجھا جو ہوتا 

کسی آرزو کے شکستہ دریچے کی اجڑی ہوئی

داستاں کو کبھی

ہم کو مدت ہوئی

راستہ راستہ

خار و خس کی طرح

گردشیں کاٹتے

اس سے بڑھ کر بھی ہو گا کوئی خواب صد چاک

ظلمت کا مارا ہوا

کیا دکھوں کی یہ ساری کہانی بھلا خواب ہے

ہم تو باز آئے

ایسی کسی خوش گمانی

یا امید سے

خوش گمانی میں ہم تو

اذیت کی ساری فصیلوں کو چھو آئے

صدیوں کی ساری اداسی کو

لمحوں میں ہم نے سمیٹا

مگر

اب بھی وحشت کھڑی ہے

ہر اک موڑ پر

گردِ ناکامئ عمر کی کوئی سوغات لے کر

مسافت کے مارے دلوں کے لیے


عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment