Thursday, 29 October 2020

زندگی اے زندگی

 زندگی اے زندگی

اک بات تو سن، پل بھر تو ٹھہر

کیا اتنی مہلت دے گی تُو

یا ایسی سہولت دے گی تُو

وہ سارے کپڑے پہن لوں میں جو الماری میں لٹکے ہیں

سارے سوہنے سینڈل، پاؤں میں ڈال کر چھم چھم رقص کروں

جو میں نے جمع کر رکھے ہیں

وہ ساری کتابیں پڑھ ڈالوں، جو الماری کی شیلفوں پہ

میرے لمس کی چاہ میں جیتی ہیں

اس کائنات میں بکھرے ہوئے سب سات سروں کو

اپنے اندر میں بھر لوں، گیت بنوں، سنگیت بنوں

توڑنے والے ریت بنوں

ناچوں, گاؤوں، اک جشن مناؤں

ہر اس ندیا سے گھونٹ بھروں جو پریت نگر میں بہتی ہے

ہر اس گوول کی خوشبو سونگھوں جو پریت نگر میں کھلتا ہے

کب کوئی کسی کو ملتا ہے

اپنے پریمی سے مل پاؤں، جو سپنوں میں ہی آتا ہے

میں پیار کروں، سو بار کروں

تن من اس پر وار کروں

سندر یہ سنسار کروں

زندگی اے زندگی! اک پل تو ٹھہر

سنتی ہی نہیں

تُو تو بھاگی جاتی ہے

پاس میرے نہ آتی ہے


نیلم احمد بشیر

No comments:

Post a Comment