Friday 23 October 2020

بھرے جہاں میں کوئی میرا یار تھا ہی نہیں

 بھرے جہاں میں کوئی میرا یار تھا ہی نہیں

کسی نظر کو میرا انتظار تھا ہی نہیں

نہ ڈھونڈئیے میری آنکھوں میں رتجگوں کی تھکن

یہ دل کسی کے لیے بے قرار تھا ہی نہیں

سنا رہا ہوں محبت کی داستاں اس کو

میری وفا پہ جسے اعتبار تھا ہی نہیں

قتیل کیسے ہواؤں سے مانگتے خوشبو

ہماری شام میں ذکرِ بہار تھا ہی نہیں


قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment