بھرے جہاں میں کوئی میرا یار تھا ہی نہیں
کسی نظر کو میرا انتظار تھا ہی نہیں
نہ ڈھونڈئیے میری آنکھوں میں رتجگوں کی تھکن
یہ دل کسی کے لیے بے قرار تھا ہی نہیں
سنا رہا ہوں محبت کی داستاں اس کو
میری وفا پہ جسے اعتبار تھا ہی نہیں
قتیل کیسے ہواؤں سے مانگتے خوشبو
ہماری شام میں ذکرِ بہار تھا ہی نہیں
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment