Friday, 23 October 2020

وہ طمطراق سکندر نہ قصر شاہ میں ہے

 وہ طمطراق سکندر نہ قصر شاہ میں ہے 

جو بات راحتِ خستہ کی خانقاہ میں ہے

اسے ہٹانا پڑے گا جنوں کی ٹھوکر سے 

یہ کائنات رکاوٹ مِری نگاہ میں ہے

میں اس سماج کو تسلیم ہی نہیں کرتا 

کہ عشق جیسی عبادت جہاں گناہ میں ہے

خیال رکتے نہیں آہنی فصیلوں سے 

کہ آہ خلق کہاں قدرت سپاہ میں ہے

کہ یہ بھی میری طرح بھولتی نہیں تجھ کو 

اسی لیے تو نمی چشم سیر گاہ میں ہے

کہاں بنائے گا تو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد 

تمام شہر تو شامل حدود شاہ میں ہے

قدم قدم پہ وہاں ہاتھ خار بنتے ہیں 

کشش عجیب سی راحت کسی کی راہ میں ہے


راحت سرحدی

No comments:

Post a Comment