اسی کو ترکِ وفا کا گماں ستانے لگے
جسے بھلاؤں تو کچھ اور یاد آنے لگے
اسے سنبھال کے رکھو، خزاں میں لَو دے گی
یہ خاکِ لالہ و گُل ہے، کہیں ٹھکانے لگے
تجھے میں اپنی محبت سے ہٹ کے دیکھ سکوں
یہاں تک آنے میں مجھ کو، کئی زمانے لگے
یہ اس کا جسم ہے یا ہے طلسمِ خواب کوئی
ادھر نگاہ اٹھاؤں تو نیند آنے لگے
کسی بہار سے تسکینِ آرزو نہ ہوئی
جو پھول صبح کھلے، شام کو پرانے لگے
نویدِ دورئ منزل ثبات دے مجھے
کہ قرب سے تو قدم اور ڈگمگانے لگے
وفا بھی حل ہو تو ایسا نہ ہو سلیم کہ پھر
دلِ خراب نئے مسئلے اٹھانے لگے
سلیم احمد
No comments:
Post a Comment