Thursday 29 October 2020

کبھی سنتے ہیں عقل و ہوش کی اور کم بھی پیتے ہیں

 کبھی سنتے ہیں عقل و ہوش کی اور کم بھی پیتے ہیں

کبھی ساقی کی نظریں دیکھ کر پیہم بھی پیتے ہیں

کہاں تم دوستوں کے سامنے بھی پی نہیں سکتے

کہاں ہم روبروئے ناصحِ برہم بھی پیتے ہیں

خزاں کی فصل ہو، روزے کے ایامِ مبارک ہوں

طبیعت لہر پہ آئی، تو بے موسم بھی پیتے ہیں

طوافِ کعبہ بے کیفیت مے ہو نہیں سکتا

ملا لیتے ہیں تھوڑی سی اگر زمزم بھی پیتے ہیں

کہاں کی توبہ، کیسا اتقا عہدِ جوانی میں

اگر سمجھو تو آؤ تم بھی چکھو، ہم بھی پیتے ہیں

نشور آلودۂ عصیاں سہی، پھر کون باقی ہے

یہ باتیں راز کی ہیں قبلۂ عالم بھی پیتے ہیں


نشور واحدی

No comments:

Post a Comment