Thursday, 22 October 2020

اک دن دکھ کی شدت کم پڑ جاتی ہے

 اک دن دکھ کی شدت کم پڑ جاتی ہے

کیسی بھی ہو وحشت کم پڑ جاتی ہے

زندہ رہنے کا نشہ ہی ایسا ہے

جتنی بھی ہو مدت کم پڑ جاتی ہے

اپنے آپ سے ملتا ہوں میں فرصت میں

اور پھر مجھ کو فرصت کم پڑ جاتی ہے

صحرا میں آ نکلے تو معلوم ہوا

تنہائی کو وسعت کم پڑ جاتی ہے

کچھ ایسی بھی دل کی باتیں ہوتی ہیں

جن باتوں کو خلوت کم پڑ جاتی ہے

اک دن یوں ہوتا ہے خوش رہتے رہتے

خوش رہنے کی عادت کم پڑ جاتی ہے

کاشف غائر دل کا قرض چکانے میں

دنیا بھر کی دولت کم پڑ جاتی ہے


کاشف حسین غائر

No comments:

Post a Comment