نہ غور سے دیکھ میرے دل کا کباڑ ایسے
کہ میں کبھی بھی نہیں رہا تھا اجاڑ ایسے
برا ہو تیرا جو بند رکھے تھے میں نے گھر کے
تو کھول آیا بغیر پوچھے کواڑ ایسے
جو میری روح و بدن کے ٹانکے ادھیڑ ڈالے
تو میری نظروں پہ اپنی نظروں کو گاڑ ایسے
سمجھ نہ پایا کہ توڑ دیتا یا ساتھ رکھتا
کہ اس تعلق میں آ گئی تھی دراڑ ایسے
اے عشق رہ جاؤں پھڑپھڑا کے یوں کر دے بے بس
سو میری گردن میں اپنے دانتوں کو گاڑ ایسے
تو میری عادت سے میری فطرت ہی ہو چلا ہے
ابھی بھی کہتا ہوں مجھ کو تو نہ بگاڑ ایسے
یہ میرے بازو ہی جنگ کا فیصلہ کریں گے
پکڑ لے تلوار اور مجھ کو پچھاڑ ایسے
تمہارے غم کا پہاڑ ٹوٹا تو پھر یہ جانا
پہاڑوں پر ہی تو ٹوٹتے ہیں پہاڑ ایسے
ہزار منت ہزار منت ہزار محنت
تجھے منانے کو کر رہا ہوں جگاڑ ایسے
عامر امیر
No comments:
Post a Comment